Monday, June 26, 2017

معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ انتقال کرگئیں.



معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ انتقال کرگئیں.
بانو قدسیہ کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا۔ وہ 28 نومبر 1928 کو مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئیں اور تقسیم ہند کے بعد لاہور آگئیں۔ ان کے والد چودھری بدرالزمان چٹھہ زراعت میں بیچلر کی ڈگری رکھتے تھے اور ایک گورنمنٹ فارم کے ڈائریکٹر تھے۔ جن کا انتقال 31 سال کی عمر میں ہوگیا تھا۔ اس وقت ان کی والدہ ذاکرہ بیگم کی عمر صرف 27 برس تھی اور وہ اپنے زمانے کی پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ بانو قدسیہ کی اپنی عمر اس وقت ساڑھے تین سال تھی۔ ان کا ایک ہی بھائی معروف مصور پرویز چٹھہ تھا۔ جس کا انتقال ہوچکا ہے۔ 
بانو قدسیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے ہی میں حاصل کی۔ انھیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انھوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔ کالج میں تعلیم کے دوران وہ اپنے کالج میگزین اور دوسرے رسائل کے لیے بھی لکھتی رہیں۔ انہوں نے کنیئرڈ کالج برائے خواتین لاہور سے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجوایشن کیا۔ بعد ازاں انہوں نے 1951ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔
زمانہ طالب علمی کے دوران اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے درمیان اتنی ذہنی ہم آہنگی ہوگئی کہ انہوں شادی کا فیصلہ کر لیا۔ تاہم اشفاق احمد کے والد ایک غیر پٹھان لڑکی کو بہو بنانے کے حق میں نہ تھے۔ اسی وجہ سے شادی کے بعد انہیں مجبوراً گھر چھوڑنا پڑا۔
بانو قدسیہ نے اردو اور پنجابی زبانوں میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بہت سے ڈرامے بھی لکھے۔ اُن کا سب سے مشہور ناول راجہ گدھ ہے۔ اُن کے ایک ڈرامے آدھی بات کو کلاسک کا درجہ حاصل ھے۔
ان کی تصانیف میں آتش زیرپا، آدھی بات، ایک دن، امر بیل، آسے پاسے، بازگشت، چہار چمن، چھوٹا شہر، بڑے لوگ، دست بستہ، دوسرا دروازہ، دوسرا قدم، فٹ پاتھ کی گھاس، حاصل گھاٹ، ہوا کے نام، ہجرتوں کے درمیاں، کچھ اور نہیں، لگن، اپنی اپنی، مرد ابریشم، موم کی گلیاں، نا قابل ذکر، پیا نام کا دیا، پرواہ، پرواہ اور ایک دن، راجہ گدھ، سامان وجود، شہر بے مثال، شہر لازوال آباد ویرانے، سدھران، سورج مکھی، تماثیل، توجہ کی طالب شامل ہیں۔
لاہور کے جنوب میں واقع قیامِ پاکستان سے قبل کی ماڈرن بستی ماڈل ٹاؤن کے ’’داستان سرائے‘‘ میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی یادیں بکھری ہوئی ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں 2003 میں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور 2010 میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ٹی وی ڈراموں پر بھی انھوں نے کئی ایوارڈز اپنے نام کیے۔
انگنت، ڈراموں، افسانوں اور شاہکار ناول کی مصنفہ بانو قدسیہ طویل عرصے سے علیل تھیں. وہ گزشتہ دس روز سے ہسپتال میں زیرعلاج تھیں۔ داستان سرائے کی مسافر کا سفر حیات ختم ھوا اور بانو قدسیہ آج مورخہ 4 فروری 2017 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔

No comments:

Post a Comment